دل و نگاہ نے اپنا تم ہی کو مانا تھا
وگرنہ ساتھ ہمارے تو اک زمانہ تھا
بس یہی سوچ کر ہم نے بچھا دیے آنسو
کہ بزم غم کو کسی طور تو سجانا تھا
ابھی سے قر بتیں فرقت میں کیوں بدل ڈالیں
ابھی تو موسم جاناں بہت سہانا تھا
میرے شجر یہ شکوے شکایتیں کیسی
وہ مسافر تھا اسے لوٹ کر تو جانا تھا
جو زندگی کو نئے زخم دے گیا ہے ظفر
کسے بتائیں کے وہ دوست اک پرانا تھا