دل ٹوٹ گیا جدائی سے
بزم میں ہوئی رسوائی سے
طعنہ ًبزم مجھے چیر گیا
اس ظالم کی بے وفائی سے
چہرے دیکھتے ہیں دیواروںپہ
خوف آتا ہے تنہائی سے
ساﺉے ظلم ڈھاتےہیں اب
دھوکے ملتے ہیں پرچھاﺉیسے
بھرم نہ ذرا بھی رکھا
اسنے گرایا بہت اونچائی سے
چوٹِعشق ہے آخر یہ
آرام کہاں ملے گا دوائی سے
اپنے دل کی نا سنی اس نے
بھاگ گیا سچائی سے
خود بھی گہراﺉیوںمیں جا گرا
ڈرتا تھا جو گہرائی سے
وہ نادان بد گماں ہو گیا
اب آس موت کی رہائی سے