دل کا شیشہ جو توڑ گیا ہے
تنہا ہم کو وہ چھوڑ گیا ہے
ہم نے جس سےخوشیاں مانگی
وہ درد سے ناطہ جوڑ گیا ہے
یہ خون کےدھبے گواہ ہیں
دیوار سےسرکوئی پھوڑگیاہے
دل دھڑکنے کا نام نہیں لیتا
جسم کا خون نچوڑگیا ہے
کچی کلی سا دل تھا اصغرکا
بےدرد اسے مروڑ گیا ہے