دل کو میرے پھر کیوں آرام آتا نہیں
جب لب پہ میرے کوئی نام آتا نہیں
یوں تو آتے ہیں بہت لوگ تماشہ کیلئے
گھر جلتے ہیں تو کوئی کام آتا نہیں
پختگی درد سے ملتی ہے محباں کو ہمیشہ
محبت کو بنا اس کے دوام آتا نہیں
وقت آغاز سے ہے ہم کو یہ فکر
کچھ آسانی سے وقت اختتام آتا نہیں
حسن پر اپنے وہ نازاں بھی ہے لیکن
سامنے کبھی وہ میرے سر عام آتا نہیں
کچھ یوں پھیلی وحشت تنہائی گھر میں میرے
جھونکا ہوا کا یہاں کسی شام آتا نہیں
دوری سخن سے سہی نہ جائے گی عیاز
سوا اس کے ہمیں کچھ کام آتا نہیں