آج انسان ہے زمانے میں
اپنے کردار کے فسانے میں
جو پرندہ رہا کیا ہے ابھی
وہ بھی ہے آخری نشانے میں
دل کی خواہش جو بڑھ رہی ہے ابھی
لطف آئے گا دل لگانے میں
اس سمندر میں ہاتھ میرا ہے
ناؤ اشکوں کی اب جلانے میں
نظر آتی نہیں وفا مجھ کو
اس ترے پیار کے ترانے میں
آپ کے شہر گر رہوں وشمہ
کیا قباحت ہے دل لگانے میں