دل کی مٹی اگر طہارت ہے
ساری دنیا ہی نیک عورت ہے
سب سے ملنے کی اپنی عادت ہے
اس مے کچھ بھی نہیں سیاست ہے
اس کی پرچھآیی دیکھ لو جاکر
خوف کتنا بلند قیامت ہے
ہے کنارے فرات کے گم صم
جیسے ٹھہری ہوئی قیامت ہے
ایک منظر ہے جلتے خیمو کا
جو ابھی آنکھ مے سلامت ہے
آندھیوں مے دیے جلانا پھر
اب کے اچھی ہوا کی نیّت ہے
بے بسی کا ملال مت کرنا
سب پی بھاری خدا کی قدرت ہے
زندگی کے سراۓ خانے مے
چار دن کی کہاں ضرورت ہے
اینے سے ملا تو اسنے کہا
سچ ہی کہنے کی مجھکو عادت ہے