دل کی گلی میں چاند نکلتا رہتا ہے
ایک دیا امید کا جلتا رہتا ہے
جیسے جیسے یادوں کہ لو بڑھتی ہے
ویسے ویسے جسم پگھلتا رہتا ہے
سرگوشی کو کان ترستے رہتے ہیں
سناٹا آواز میں ڈھلتا رہتا ہے
منظر منظر جی لو جتنا جی پاؤ
موسم پل پل رنگ بدلتا رہتا ہے
راکھ ہوئی جاتی ہے ساری ہریالی
آنکھوں میں جنگل سا جلتا رہتا ہے
تم جو گئے تو بھول گئے ساری باتیں
ویسے دل میں کیا کیا چلتا رہتا ہے