جس نے رکھا ہے تمہیں دل کے حوالوں میں یہاں
زندگی اس نے گزاری ہے عذابوں میں یہاں
جانے کب آئے قضاء موت کا ساغر لے کر
غرق کرتا رہا میں خود کو شرابوں میں یہاں
مانگنے والے نے مانگا ہے محبت کا حساب
کیا مجھے پایا ادھوار ہے وفاؤں میں یہاں
اتنا ناراض نہ ہو تیری محبت کی قسم
میں سوچا ہے فقط تجھ کو خیالوں میں یہاں
سب کو جلوؤں کی تجلی کے اجالے بخشے
میری باری پہ ہی آیا تھا نقابوں میں یہاں
وہ میرا نقش مٹانے پہ بضد ہے لیکن
میں تو آؤنگا نظر اسکو خوابوں میں یہاں
گھر کا ٹوٹا ہوا دروازہ کھلا رہنے دو
کون آئیگا میرے خانہ خرابوں میں یہاں
اسکی رسوائی کے زخموں سے شناسائی ہے
اب نہیں گھر سے نکلتا وہ حجابوں میں یہاں
پڑھنے والوں کی بھی آنکھوں سے ہیں ٹپکے آنسو
کس نے لکھا میرا قصہ ہے کتابوں میں یہاں
جانے کس موڑ پہ وہ میری محبت ڈھونڈے
میں نے چھوڑا ہے اشہر خود کو سرابوں میں یہاں