دل کے شیشے میں بال کیوں آئے
رنجشوں کا خیال کیوں آۓ
وہ وفا کر بھی پائیں گے یا نہیں
ذہن میں یہ سوال کیوں آۓ
جِس نے اوروں کے پر کتر ڈالے
خود ہی وہ زیرِ جال کیوں آۓ
وصل کی اپنی ایک خوشبو ہے
لب پہ ذکرِ وصال کیوں آۓ
آج رہ رہ کے میری آ نکھوں میں
تیر ا رنگِ جمال کیوں آۓ
میں نے مانگی دعاۓ صبر و سکوں
پھر بھی دِل میں اُبال کیوں آۓ
دل میں جتنا بھی رنج ہو چاہے
رُخ پہ رنگِ ملال کیوں آئے
میں نے کھویا تھا جب کوئی اپنا
پھر سے وہ ماہ و سال کیوں آئے
دِل میں جب کھوٹ ہی نہیں عذراؔ
چاہتوں کو ذوال کیوں آۓ