دل ہی نہ رہا ٗ چاہت کیا کرتے
اُسکے ستموں کی شکایت کیا کرتے
صفحہ ہی پھاڑ دیا اُس کے نام کا
گھٹ گھٹ کے یوں ندامت کیا کرتے
ہوئی تھی اِک خطا ٗ سو ہو گئی
پچھتاتے رہنے کی بے وجہ عادت کیا کرتے
تعلق ہی توڑ دیا ٗ یہی بہتر لگا
محبت تھی اُس سے ٗ نفرت کیا کرتے
زحمت ہوتے ہی زوال نہ بن جاتی
اُسے جھیلتے رہنے کی زحمت کیا کرتے
خدا کی جانب منہ موڑ دیا اُس نے
اچھا ہی کیا ٗ اُس سے معزرت کیا کرتے
چپ تان لی اُس کی بے وفائی سے بس
کیا ہو جاتا بھلا ٗ قیامت کیا کرتے