دل ہے ناداں مچل گیا ہوگا
Poet: Sheikh Huma Ali By: Sheikh Huma Ali, Karachiقحط خوشیوں کا پڑ گیا ہوگا
کوئی دل سے اتر گیا ہوگا
وہ جو سپنا سجا تھا آنکھوں میں
وہی سپنا بکھر گیا ہوگا
تم نے چاہا تھا ٹوٹ کر جس کو
وہ تمہیں چھوڑ کر گیا ہوگا
جس کو دل میں بسا کے رکھا تھا
وہی دل توڑ کر گیا ہوگا
جس سے جیون میں روشنی تھی کبھی
وہ تو سورج تھا ڈھل گیا ہوگا
اس قدر کیوں کٹھور بنتے ہو
دل ہے ناداں مچل گیا ہوگا
چاہ کر جس کو دل جلاتے ہو
وہ تو خوشیوں میں کھیلتا ہوگا
چین جس نے تمہارا لوٹ لیا
وہ سر شام سو گیا ہوگا
جس سے خوشیاں سبھی تھیں وابستہ
درد آنگن میں بو گیا ہوگا
وہ ہمارا نہ بن سکا نہ سہی
وہ کسی کا تو ہو گیا ہوگا
کیا سمجھتے ہو تم دکھی ہوں میں
کوئی دھوکا تمہیں ہوا ہوگا
عمر بھر ساتھ کیا بھلا چلتا
اس نے رستہ بدل لیا ہوگا
وہ جو کہتا تھا کہ چاہت ہو تم میری جانا
اس نے دھوکا تمہیں دیا ہوگا
یاد میں جس کی جل رہی ہو تم
اس نے تم کو بھلا دیا ہوگا
آج اس سے ہیں سینکڑوں شکوے
وہ جو دل میں کبھی بسا ہوگا
درد اپنا کیسے سناتی وہ
اس نے ہونٹوں کو سی لیا ہوگا
رات دن کس لیے تڑپتا یہ
دل تو کب کا سنبھل گیا ہوگا
یہ جو آنکھوں میں ہے تلاش چھپی
کوئی اپنا بچھڑ گیا ہوگا
چن رہی ہو یہ کرچیاں کیسی
کوئی سپنا بکھر گیا ہوگا
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں







