دل تمہاری یاد میں پہلے کبھی رویا نہیں
ریزہ ریزہ ٹوٹ کر ایسے کبھی بکھرا نہیں
زندگانی گر مکافاتِ عمل کا نام ہے
کاٹتی کیوں پھر رہی ہوں جو کبھی بویا نہیں
آ رہا ہے پیار اُس کی اِس ادا پر ٹوٹ کر
شب کا تارہ رات بھر میرے لیۓ سویا نہیں
لے گئے حالات تجھ کو دور مجھ سے چھین کر
میں نے دانستہ تو میری جاں تجھے کھویا نہیں
رفتہ رفتہ ایک دن یہ مندمل ہو جائے گا
زخم گہرا ہے مگر اتنا بھی تو گہرا نہیں
سامنے میرے رقیبوں کو لئے پھرتا ہے جو
بیوفائی سے بھی اُس کی دل میرا ٹوٹا نہیں
اور بھی تیری طرح سے ہیں شکستہ پا کئی
ایک تو ہی زندگی کی راہ میں تنہا نہیں
کس طرح جانے کٹے گا یہ کڑا لمبا سفر
دھوپ کتنی تیز ہے اور سر پہ بھی سایا نہیں
جو سدا چلتا رہا خوابوں میں میرے ساتھ ساتھ
سامنے آیا تو اک لمحے کو بھی ٹھہرا نہیں
ہو رہا ہے جو اسی پر ہم تو رکھتے ہیں نظر
آگے کیا ہونا ہے ہم نے یہ کبھی سوچا نہ نہیں
ہے بہت آساں ترے قاتل کو اب پہچاننا
اس نے اپنی آستیں سے خوں ابھی دھویا نہیں