آج یاور نے وہ شور برپا کیا دل تھا شیر کا جو تڑپا دیا سانس اکھڑ سا گیا طرز بشر کا رمز پے موت نے قبضہ کیا نہ دل ہی بچا نہ ہی حسرت رہی آرام دونوں نے ایک عرصہ کیا راہ گزاں ہو گئی آج اسراف ساری مفلسی نے دنیا سے پردہ کیا