دنیا لگی ہوئی تھی پیار میں
ہم پڑے رہے کسی انتظار میں
سبھی پھول چن لیے لوگوں نے
جوانی آئی جب بہار میں
ہم دیکھتے ہی بس رہ گئے
منہٗ کھڑے کھڑے گلزار میں
وہ کھڑی سامنے دیوار کر گیا
چھید بھی نہ تھا دیوار میں
کیا بتائیں ٗ کیا کیا صفت ہے
ہمارے چنے ہوئے غم خوار میں
ہم زمانے سے پرے ہو گئے
وہ رچا رہا سنسار میں
کاش آئے نہ ہوتے اِس میں
سوچتے ہیں خار زدہ دیار میں
کہ جنہیں آئے تھے ڈھونڈنے
ملا نہ کچھ اس حصار میں
اُلٹی پڑ گئی چال ہمیں
لُٹ ہی گئے اعتبار میں