دنیا کے ہیں حالات ذرا اور طرح کے
اور اپنے خیالات ذرا اور طرح کے
گو عشق سے ہوتا ہے جنوں سب کو میسر
مجھ پر ہیں اثرات ذرا اور طرح کے
کیوں سو نہ سکھا رات کو اب کیسے بتاؤں
مہمان تھے کل رات ذرا اور طرح کے
دل توڑیں کئی لوگ شب و روز‘ پر ان سے
ہیں شکوے شکایات ذرا اور طرح کے
ہم لوگ بھی تو رینگتے رہتے ہیں زمیں پر
ہم سب بھی ہیں حشرات ذرا اور طرح کے
خون آپ کو کچھ ان پہ نظر آ نہ سکھے گا
زخمی ہیں مرے ہاتھ ذرا اور طرح کے
کرتے ہیں جو ہنس ہنس کے وہ کچھ اور ہیں باتیں
اور دل میں ہیں جذبات ذرا اور طرح کے
غافل نہیں دنیا سے کہ ہرچند ہمارے
مجروح ہیں جذبات ذرا اور طرح کے
چاہا تھا ندیم عشق میسر ہو سکوں سے
پر ہیں مرے دن رات ذرا اور طرح کے