منسوبِ غم جاناں ہوں کچھ تو خیال کر
اے زیستِ ستم گر نہ جینا محال کر
اسے بھی ہو کبھی عمرِ رفتہ سے گلہ
اے عشقِ جنوں خیز کوئی ایسا کمال کر
ہوا شریر ہے کر نہ جائے مجھے حیراں
رکھئے گا آپ اپنا آنچل سنبھال کر
شوقِ جنوں میں جان ہارا ہوں میں اگر
اے ابرِ باراں تو نہ اتنا ملال کر
بہاروں کے قافلے کے کچھ دیر روک لو
آتا ہوں میں بھی پاؤں سے کانٹے نکال کر
دنیا ہے اک سفر اور راہیں ہیں پر آشوب
مظہر قدم بڑھاؤ تم دیکھ بھال کر