دوستوں کے روپ میں بڑے دشمن کو بھی دیکھا
غریب کے جولی میں ہر ستم کوبھی دیکھا
دعوئ تو کیا تھا کہ تجھے درد نہ دونگا
مرحم لگانے والے کے زخم کو بھی دیکھا
تانہ میری تنہائی کا تو بھی دیا تھا
تنہائی کی آگوش میں مرحم کو بھی دیکھا
اپنوں نے دئے زخم تو غیروں سے کیا گلہ
ہر دوست کے ہاتھوں سے ہر ستم کو بھی دیکھا
نہ پیار سے گلہ نہ میرے عشق سے گلہ
دل میں جو بیٹھ گئے اسنے دھڑکن کو بھی دیکھا
الفاظ یہ نہیں یہ میرے دل کے ہے جذبات
غزلوں کے بکھرتے ہوئے آنگن کو بھی دیکھا
جب گر گئی مہک تو زخم یاد نہ رہا
ہاتھوں میں ٹوٹتے ہوئے کنگن کو بھی دیکھا