دوست بھی دشمن نہ تھے دل بھی عدو میرا نہ تھا
یہ تو مجھ پر اب کھلا ظالم کہ تو میرا نہ تھا
اس طرح خوش ہو رہا ہوں جشن مقتل دیکھ کر
جس طرح ہر نوک خنجر پر لہو میرا نہ تھا
اپنے اپنے بےوفاؤں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا یہیں تھا تو میرا نہیں تھا
وہ کہیں بھی چھوڑ جاتا کیا گلہ اس سے کہ وہ
ایک مسافر تھا شریک جستجو میرا نہ تھا
اب تو خود سے بولتے ہوئے خوف آتا ہے فراز
اتنا دل آزار طرز گفتگو میرا نہ تھا