(١٣)
مدت سے میں نے تو کوئی خواب نہیں دیکھا
تم میری آنکھوں پر ہاتھ رکھ دو ک نیند آۓ
(١۴)
غرضِ ہستی میں تو بے چینی مقدر ہو گی
درد سینے میں کوئی غیر سجا کر دیکھو
(١۵)
ایک شام کی دہلیز پر بیھٹے رہے ساتھ وہ دیر تک
آنکھوں سے کی باتیں بہت منہ سے کہا کچھ بھی
(١٦)
بہت دھوکہ دیتے ہیں محبت میں سوچ کر کرنا
یہاں جن لوگوں نے چہرے بہت سنوار رکھے ہیں
(١٧)
تجھے مل جائے گی فرصت اور مل جائے گر جب فرصت
پھر لوٹ آنا تم یادوں کے ساحل پر میں اکیلا ہی بیٹھا ہوں
(١٨)
بند کرو یہ شعروشاعری، بند کرو یہ چُبھتے ھوئے الفاظ
صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ تُمہیں عشق ہے
(١٩)
اور ایک پیاس ہمشہ ادھوری رہ جاتی ہے
جب بہت سی باتیں ان کہی رہ جاتیں ہیں
(٢٠)
میں اپنی بے چین خواہش کو ایک تصویر بنادیتا ہوں
ہر لمحہ تمہاری یاد کو اپنی زندگی بنادیتا ہوں
(٢١)
میرے ہاتھ مٹی کے بدن کو سانچوں میں ڈھال رہے تھے
اس کے وجود کو میں نے کتنی ہی تصویروں میں دیکھا
(٢٢)
آج تمہاری یاد میں جاناں آکر دیکھو دیکھ لو آ کر
میرے نینوں کی رم جھم سے بھیگ رہی ہے بارش بھی
(٢٣)
جو نہ مل سکا وہ تو قسمت کی بات ہے
جو مل گیا زندگی میں وہ میرا نصیب ہے
(٢۴)
میں اب کے لوٹا تو صدیوں کی عمر لاؤں گا
که تیرے ساتھ مجھے مختصر نہیں رہنا
(٢۵)
اُسے جانے کی جلدی تھی، سو میں آنکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا،وہاں تک چھوڑ آیا ہوں
(٢٦)
شاید یہ تازہ تازہ جدائی کا تھا اثر
ہر شکل یک بیک تیری صورت سی ہو گئی
(٢٧)
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ
ﯾﮧ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺣﻤﺎﻗﺖ ﮨﮯ
(٢٨)
یہی بہت ہے کہ دل اس کو ڈھونڈ لایا ہے
کسی کے ساتھ سہی وہ نظر تو آیا ہے
(٢٩)
بس ایک معافی ، ہماری توبہ کبھی جو ایسے ستائیں تم کو
لو ہاتھ جوڑے ، لو کان پکڑے ، اب اور کیسے منائیں تم کو
(٣٠)
ﺫﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﺮﺯﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﮯ
ﮬﻤﯿﮟ ﮐﺎﻧﭩﻮﮞ ﭘﮧ ﭼﻠﻨﺎ ﺁ ﮔﯿﺎ ﻧﺎ
(٣١)
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﺳﮯ ﺧﻮﻑ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ
ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺗُﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ
(٣٢)
ﻓﻠﮏ ﭘﺮ ﺭﻗﺺ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻥ ﮔﻨﺖ ﺭﻭﺷﻦ ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ
ﺟﻮ ﮨﻢ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﺩﯾﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ
(٣٣)
ﻟﻮﭦ ﺁﺅ ﮐﮧ ﭘﺘﮭﺮ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﭘﮭﻮﻝ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ
اب ﭼﻮﭦ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ ﺑﮑﮭﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﮐﺜﺮ
(٣۴)
جتنا میں اپنے پاس تھا، اتنا میں اپنے پاس ہوں
باقی کا اس سے پوچھیے، اس نے مجھے کہاں کیا