دکھ گہرا ہے جھانکو تو درد نظر نہیں آتا
خشک آنکھوں میں دیکھو تو آنسو نظر نہیں آتا
مقدر کی طرح نتھی ہیں مجھ سے تاریک راتیں
ڈھونڈتی ہوں روشنی کا دیا دکھائی مگر نہیں آتا
ہر خواب کی تعبیر کہاں ملتی ہے
ہر پھول پہ رقص کرتا بھنورا نظر نہیں آتا
کس طرح میں اپنے دکھ کی داستاں بیان کروں
ہر کوئی تو یہاں ہمدرد سخنور نہیں ہوتا
کس کو الزام دوں دل ٹوٹنے کا
دکھائی کسی ہاتھ میں بھی پتھر نہیں آتا
پھیلتے اجالے کو نہ دن سمجھ لیا کرو
ہر اجالا تو قمر نہیں ہوتا