اس جہاں میں دکھ ایسے بٹتے ہیں
خزاں میں جیسے شجر سے پتے جھڑتے ہیں
ہجر کے پہلو میں دن رات ایسے کٹتے ہیں
صحرا کی گرم ریت میں پاؤں جیسے گڑتے ہیں
غم کے اندھیروں میں تقدیر کو ایسے پڑھتے ہیں
انجانی راھوں میں سکھ پانے کو جیسے بڑھتے ہیں
لوگ پانی پے لکھے ناموں کی طرح مٹتے ہیں
تنہائی کے سرد لمحوں میں جیسے خواب سمٹتے ہیں
دل سے مجبور ہاتھ میرے دعاء کے لئیے اٹھتے ہیں
وصل کی چاہ میں جدائی کے بادل جیسے چھٹتے ہیں