دھوپ کے خوف سے بے نام و نشاں چھوڑ گیا
Poet: سید عقیل شاہ By: syed Aqeel shah, Sargodhaدھوپ کے خوف سے بے نام و نشاں چھوڑ گیا
مجھ کو سایہ بھی مرا لا کے کہاں چھوڑ گیا
مٹ گیا شہر تہہِ خاک تو گمنامی میں
جل بجھی راکھ پہ صدیوں کا دھواں چھوڑ گیا
کون سمجھے کہ سرابوں کے سفر میں کیا ہے
قافلہ اپنی حقیقت میں گماں چھوڑ گیا
جب میں پلٹا تو مجھے کوئی بھی پہچانا نہیں
میں وہاں کب تھا زمانہ یہ جہاں چھوڑ گیا
شور اُٹھا ہے کہیں حشر کی پاتال تلک
کون اس درجہ اداسی میں مکاں چھوڑ گیا
عشق کا کھیل بھی اک کارِ تجارت تھا عقیل
دل کے بازار میں سارا ہی زیاں چھوڑ گیا
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






