دھوپ کے خوف سے بے نام و نشاں چھوڑ گیا
مجھ کو سایہ بھی مرا لا کے کہاں چھوڑ گیا
مٹ گیا شہر تہہِ خاک تو گمنامی میں
جل بجھی راکھ پہ صدیوں کا دھواں چھوڑ گیا
کون سمجھے کہ سرابوں کے سفر میں کیا ہے
قافلہ اپنی حقیقت میں گماں چھوڑ گیا
جب میں پلٹا تو مجھے کوئی بھی پہچانا نہیں
میں وہاں کب تھا زمانہ یہ جہاں چھوڑ گیا
شور اُٹھا ہے کہیں حشر کی پاتال تلک
کون اس درجہ اداسی میں مکاں چھوڑ گیا
عشق کا کھیل بھی اک کارِ تجارت تھا عقیل
دل کے بازار میں سارا ہی زیاں چھوڑ گیا