خواہش التفات نے مارا
ایک سادہ سی بات نے مارا
حسن ذات و صفات نے مارا
عشق کی واردات نے مارا
زندگی پر تو قیامت ہے
دہر کے حادثات نے مارا
کیا بتاؤں میں بیکسی دل کی
ہجر کی کالی رات نے مارا
ناؤ رنگینیوں میں ڈوبی ہے
رونق شش جہات نے مارا
شوخی چشم اور لب و رخسار
حسن کی کائنات نے مارا
پھنس گئے ہم بھی اس شکنجے میں
آرزوئے نجات نے مارا
کب کوئی برچھیوں سے مرتا ہے
رنگ و خوشبو کی بات نے مارا
موت سے اس طرح نہیں مرتا
آدمی کو حیات نے مارا
لوگ دشمن کے ہاتھوں مارے گئے
ہمیں اپنوں کی گھات نے مارا
کون ہے طالب تغیریاں
آرزوئے نجات نے مارا
جی سکے گا جہاں میں کیا رومی
جسے خوف ممات نے مارا