کیوں صبح امید میں بھی اداسیوں کا شمار رکھنا
کیوں برستی بارشوں کا، خود میں اپنے خمار رکھنا
جب ہستی کی بھامبھیوں میںوہم دیمک آبسے تو
خیال اپنے کو باندھ لینا، دل اپنا بے مہار رکھنا
زمانے کی انگلیاں جب خواب سارے نوچ ڈالیں
تم مجھ سے بات کرنا، نا خود سے فرار رکھنا
تم خزاں رت کے پیلے ہونٹوں کی سسکیوں پر
رنگ اپنے انڈیل دینا، خود کو مژل بہار رکھنا
پڑھ سکو گے حرف حرف میری تیرگی کی داستاں
پہلے سفید کاغذوں پہ، دہکتا اک شرار رکھنا