دیمک زدہ لوگ ہیں یہ
بھیانک ان کے چہرے ہیں
بصارت سے محروم ہیں یہ
سماعت سے یہ بہرے ہیں
قلب میں ان کے لگے ہیں جالے
ہونٹوں پہ قفل اور پہرے ہیں
غلام ہیں اپنے نفس کے سارے
نہ کھڑے یہ کسی کٹھہرے ہیں
شیشے جیسے گھر ہیں ان کے
پتھروں میں یہ گڑے ہیں
سب کو اپنی منزل چاہیے
یہ کب کہیں پہ ٹھہرے ہیں
کیا یہ بازی پلٹ پائیں گے
وقت کے ہاتھ میں محرے ہیں
بچو تم اس خود غرض دنیا سے
اس کے گھاؤ تو گہرے ہیں