گلستاں کی رنگینیاں چھوڑ کر
کتنی معصوم کلیوں کا دل توڑ کر
زمانے کے جھنجھٹ سے منہ موڑ کر
دیوانہ چمن سے چلا جائے گا
یہاں علم و فن ہیں سبھی بے اثر
نہیں کوئی جانے کسی کی قدر
انہی کج ادائیوں کو وہ سوچ کر
دیوانہ چمن سے چلا جائے گا
محبت تو دنیا کا بیوپار ہے
یہ مت سوچو سچا کوئی پیار ہے
یہ سن کر کہ دولت ہی معیار ہے
دیوانہ چمن سے چلا جائے گا
امیری سراپا ہے جاہ حشم
غریبی کی قسمت میں رنج والم
یہ سہہ کے زمانے کے ظلم و ستم
دیوانہ چمن سے چلا جائے گا