دیکھ کے تم کو ہوا میں مبتلاۓ اضطراب
کچھ نہیں ہوتا مجھے اب ماسواۓ اضطراب
مجھ کو کرنا تھا خدا نے مبتلاۓ اضطراب
تو تمہیں بھیجا مرے آگے براۓ اضطراب
ہے زباں پر وِرد ہر دم ہاۓ ہاۓ اضطراب
ابتدا ہی میں ہوا ہے انتہاۓ اضطراب
تم نے دیکھا مجھ کو تو بے چین میرا دل ہوا
مختصر سا ہے مرا یہ ماجراۓ اضطراب
مان لُوں تجھ کو مسیحا بے تامل میں اگر
کر دے تُو ایجاد چارہ گر دواۓ اضطراب
روح میں میری کچھ ایسے ہو گیا پیوست یہ
جان جاۓ پھر کہیں یہ ساتھ جاۓ اضطراب
کیا فغاں کرتے ہو ہر دم تم نے یہ اچھی کہی
تم کو ہو معلوم جب یہ تم پہ آۓ اضطراب
یہ الم تم نے دیا یہ رنج بھی تم سے ملا
پھر بتاؤ کیوں نہ ہو جاؤں فداۓ اضطراب
باعثِ مضطر نہ کیوں کر ہو فہد پھر یہ غزل
لفظ ہر اک شعر میں کیا ہے سواۓ اضطراب