عجب ہے ارتقا کے باب کا یہ ذہن افگن مسئلہ
سارے عناصر
اپنی پہلے سے تعین کردہ ہیئت میں
کہیں سے جمع ہوتے ہیں
پھر اُس کے بعد بے حد خاموشی سے
واپسی کے طے شدہ رستوں پہ اِک دن چل نکلتے ہیں
ازل سے زندگی کا دائرہ
یونہی سفر میں ہے
عناصر کا تناسب اپنے منظر کے تناظر میں بدلتا ہے
تلاشِ رزق میں گردان فصیلِ جسم سے باہر نکل جائے
کبھی سارا ہنر پنجوں میں در آئے
کبھی تلوے ہی جھڑ جائیں
کچھاریں اوربھٹ اور غار اور اسکائی سکریپر
زمیں پر پھیلتے جائیں
کبھی آہستہ آہستہ
کبھی یک لخت
اورگاہے بہ گاہے
دونوں صورت میں
(ابھی دانشوروں میں یہ سخن کچھ اختلافی ہے)
مگر شجرہ ہمیں مطلوب ہے
جس ذی حشم ذی شاں قبیلے کا
وہاں آ کر نسب نامہ
گھنے بالوں مناسب شکل و صورت قدوقامت تک
پہنچ کر گنگ ہو جاتا ہے
اُس کے بعد پھر بس ایک منزل
ایک لمحہ
ایک صدی
آنکھوں سے اوجھل ہے
حقیقت یہ ہے لیکن
اگر تھوڑی سی سچائی نظر میں گھول کر
اِک دن ذرا سا اپنے گرد و پیش کو
ہم دیکھ ڈالیں
تو یہ گم گشتہ حلقہ ایسے روشن ہو
کہ سب کھوئی ہُوئی کڑیاں
ہمارے ہاتھ آ جائیں
اگر تھوڑی سی جرأت
اور تنہائی میں آئینہ اُٹھا کر دیکھنے کا حوصلہ بھی ہو
تو شاید
اتنی زحمت بھی نہیں کرنی پڑے ہم کو