ذرا سی دھوپ اتر آئی جو صحن میں مرے
کسی کا سایہ ابھر آیا پھر ذہن میں مرے
ہٹا جو چاند سے سایہ تو ہو گئے ظا ہر
ابھی تلک یہی جذبات تھے گہن میں مرے
کرے ہیں دوست بھی اب شکوے تلخ گوئی کے
یہ کس نے گھول دیں کڑواہٹیں دہن میں مرے
خیال روز قیامت کبھی جب آتا ہے
دہکنے لگتی ہے اک آگ سی بدن میں مرے
کبھی فدا تھے وہ میری ہر ایک ادا پہ حسن
اب عیب دکھنے لگے ہیں رہن سہن میں مرے