اِسی لِیئے کوئی جادُو اثر نہِیں کرتا
گُمان دِل میں مِرے دوست گھر نہِیں کرتا
جُھکا ہی رہتا ہے گشتی پہ اپنے شام و سحر
پِسر کو بولتا ہوں کام کر، نہِیں کرتا
فقِیر جان کے محبُوب پیار بِھیک میں دے
میں اپنے آپ کو یُوں در بدر نہِیں کرتا
ہُؤا ہے یُوں بھی کہ حالات خُود کُشی کے تھے
اِرادہ کر کے چلا بھی، مگر نہِیں کرتا
کڑے مقام پہ جُوں لوگ رُخ بدلتے ہیں
دُعا قُبول خُدا بھی اگر نہِیں کرتا؟
ہُؤا جُنوں سے عقِیدت کے سُرخرو ورنہ
معارکہ یہ محبّت کا سر نہِیں کرتا
پڑا جو وقت گِھسٹنا پڑے گا اُس کو بھی
وہ ایک شخص جو پیدل سفر نہِیں کرتا
پتہ نہ تھا کہ کٹھن مرحلے بھی آئیں گے
وگرنہ عہدِ وفا عُمر بھر نہِیں کرتا
رشِیدؔ کرتی حُکُومت اگر پذِیرائی
کوئی بھی سودۂِ عِلم و ہُنر نہِیں کرتا