مجھے پھر یاد آتا ہے کئی قصے پرانے
وہ مہکتے دن اور مدہم
ذہن کے گوشوں میں بند ماضی
کہیں اب بھی وہ زندہ ہیں
گرم سانسیں کہیں
دور راستے کی دھول کی مانند
بلاتی ہیں مجھے پھر سے
مسافر، عدم کی راہی
مجھے احساس ہونے کا
دلاتی ہیں۔
وہی پت جھڑ، وہی راستے
وہی پھر عدم سے دوچار
درختوں کے تنوں پر پھڑ پھڑاتے خشک پتے،
اور بے خیالی ، جھیل کا ساحل
وہ آبگینہ تیری آنکھوں کا بھر جانا
لرزتے ہونٹ سے بہتے
وہ ٹھنڈ لفظوں کی گرمائش
وہ بہتا بادہ تر، اور غموں کا آتشیں گھونٹ
اور وہ مخمور آنکھیں
مجھے پھر یاد آتی ہیں
رواج زندگی کا معاملہ بھی کچھ عجب سا ہے
کہیں دو پل گراں لگنا کہیں صدیوں کا کم پڑنا
کہیں پھر دور تک چل کر پلٹنا الوداع کہنا
گرجنا فکر کے بادل، محبت بارشیں کرنا
اور غموں کے سیل میں
بہہ کر ختم ہونا امر ہونا
مجھے پھر یاد آتی ہیں۔