رات جب کسی پہر میں ٹہر جاتی ہے
یا پھر شائر تھک جاتی ہے
چپکے سے مجھے جگا لیتی ہے
اور پہلو میں میرے بیٹھ جاتی ہے
پھر کاندھے پر سر رکھ کر
خاموش، اداسی سے کچھ کہتی جاتی ہے
محوہوکر میں بھی جیسے سنتا رہتا ہوں
اسے دیکھتا رہتا ہوں
جب اسے ٹٹولتا ہوں
کھولی آنکھوں سے دیکھتا ہوں
نمی کاندھے پر بس محسوس ہوتی ہے
سورج کی اوٹ میں چھپ کر
جانے کب وہ چلی جاتی ہے
رات کا دکھ کتنا اچھا ہوتا
ہر آنکھ سے اوجچھل رہتا ہے