رات بھر ہوتی رہی برسات دل جلتا رہا
دل پہ انجانا سا کوئی تیر سا چلتا رہا
وقت کے دریا سے لمحوں کے نہ موتی چن سکے
بے خبر ہم ، اور سورج عمر کا ڈھلتا رہا
کہ نہ پائے ہم اگرچہ کچھ مروت کے سبب
غیر کا آنا ترے در پر ہمیں کھلتا رہا
قافلہ چل بھی دیا رستے میں ہم کو چھوڑ کر
دور تک جانے کا سپنا ہاتھ ہی ملتا رہا
زیست کی مصروفیت میں کچھ پتہ تک نہ چلا
دل میں غم ناسور بن کر پھولتا پھلتا رہا
میں نے جس کو زندگی کی ہر امانت سونپ دی
سانپ بن کر آستیں میں وہ مری پلتا رہا
پاس میرے تھا اگر کچھ وہ تھا میرا حوصلہ
دشمنوں کی چھاتیوں پہ مونگ جو دلتا رہا
ہم توجہ ہی نہ دے پائے کبھی اپنی طرف
وقت کی بھٹی میں سونا جسم کا گلتا رہا
ہم نے عذراؔ اپنی دھڑکن میں بسایا تھا جسے
ہر قدم پر خوابِ رنگیں بن کے وہ چھلتا رہا