راہ شوق کے لمحے سارے یاد آئے بہت
دن جو ہم نے مل کر گزارے یاد آئے بہت
آغآز سفر میں بکھر گئے سب ادھر ادھر
وہ جان سے پیارے سہارے یاد آئے بہت
بندھن ٹوٹ کر بھی اک تعلق اک رشتہ رہا
دشمن جو بنے سجن پیارے یاد آئے بہت
ہمارا مل کر بچھڑنا شاید مقدر میں تھا
بے مقدر نقدر ہمارے یاد آئے بہت
پتھر جس نے بھی مارا سہنا تو پڑا ہمیں
مگر جو گلاب اپنوں نے مارے یاد آئے بہت
سمندر کے وسط میں جب ڈوبنے لگے شاکر
اس وقت ہمیں کنارے یاد آئے بہت