رسوائی کا سبب ہے وہی پھر بھی طلب ہے وہی تجھ سا نہیں زمیں پہ کہیں آگ دل میں غضب ہے وہی تو نے کبھی دیکھا ہی نہیں حال مرا عجب ہے وہی تو ملے یا نہ ملے پھر کبھی دل میں تیرا ادب ہے وہی جن کو اک خوشی بھی نہ ملی میرا بھی نسب ہے وہی