رشتوں کی دوکان
Poet: کنول نوید By: kanwal naveed, karachiروتے ہی رہتے ہیں صدا انسان جو ہوں تاجر
قسمت کہاں خرید پایا ہے کوئی سازوسامان سے
دوست یہاں اکثر ہی بن جاتے ہیں کیوں دشمن
کیوں نہ شوق سے چلے جائیں ہم اس جہاں سے
ہر کسی کا یہی رونا ہے کہ کچھ کمی ہے باقی
ملتا ہی کیا ہے کسی کو اس ان چاہے مکان سے
سب کچھ ہے میسر مگر سکون سے ہیں عاری
حیران ہیں بہت ہم اپنے اس دل کے آستاں سے
مٹی میں دفن ہیں تو نہیں کوئی رہی شوکت
دنیا میں جو نظر آتے تھے کسی حکمراں سے
شیطان کہاں کر سکتا ہےایسا برباد کسی کو
ڈریں نہ کیوں ہم پھر انسان ہو کر انسان سے
پہلے کہا کرتے تھے جسے گھر اب نہیں ہے
تنگ آگئے ہم کنول اس رشتوں کی دوکان سے
More Sad Poetry






