رفتہ رفتہ رنگ میں تبدیلی ہو گی خاکِ خس
قطرہ قطرہ زندگی ٹپکا رہی ہے اپنا رس
موت جن شہروں کو اجزائے پریشاں کر چکی
پھر انہیں چھونے لگا زیست کے ہاتھوں کا حبس
ہاں کبھی دو بے تکلف دوستوں کے بیچ
خاموشی اتنی اذیت ناک ہوتی ہے کہ بس
خشک پتوں سے یہ کہہ کر رو پڑی جاتی ہے بہار
پھر ملیں گے زندگی لائی اگر اگلے برس
صبح بستر سے اٹھی انگڑائیاں لیتی ہوئی
دُھوپ کی آہٹ پہ چونک اٹھے ہیں مندر کے کلس
اور دنیا کی محبت بڑھ گئی یہ جان کر
سب فنا ہو جائے گا اللہ بس باقی ہے بس