رفعتوں کے سائے جدا ہو گئے ہیں
نجانے کس کے لئے فدا ہو گئے ہیں
نہیں چاہت ویراں ہو گئی ہے الفت
خدایا کیسے انساں پیدا ہو گئے ہیں
ہر سو منڈلا رہی ہے غم شناسائی
نہیں سماعتیں شجر بےصدا ہو گئے ہیں
ارماں دل گئے آنکھوں سے نیند گئی
رات دن بھی شاید خفا ہو گئے ہیں
جذبے جواں نہیں رائیگاں ہیں کوششیں
ساز سارے نغمے رسوا ہو گئے ہیں
سب تقاضے ہیں زندگی کے ادھورے
طفل مکتب درس سے بےنوا ہو گئے ہیں
کسے کہیں کہ کوں ہے کسی کا خالد پرویز
ٹوٹے آئینے میں عکس بےانتہا ہو گئے ہیں