روح کو آسودگی نہیں ملتی
Poet: UA By: UA, Lahoreروح کو آسودگی نہیں ملتی
دل کو کیونکر خوشی نہیں ملتی
یہ بدن بھی تھکا سا رہتا ہے
جان کو زندگی نہیں ملتی
کیا کمی ہے کہ جو نہیں ملتی
کیا خوشی ہے کہ جو نہیں ملتی
کس لئے دل کشی نہیں ملتی
آسودگی کیا ہے یہ خوشی کیا ہے
جان کیا ہے یہ زندگی کیا ہے
جو کسی بھی طرح نہیں ملتی
آرزو ہے طلب ہے جستجو ہے
دل میں پنہاں نگاہ کے روبرو ہے
کیسی حالت ہے یہ کہ ہو کے بھی
ایک جگہ، اک جگہ نہیں ملتی
روح کو آسودگی نہیں ملتی
دل کو کیونکر خوشی نہیں ملتی
More Sad Poetry






