روح کے گھاؤ کو دنیا سے چھپا کر ہم کو
ٹوٹے آئینے کو کیا گھر میں سجا کر ہم کو
ان سے کہہ دو کہ ہمیں اب نہ ستانا اچھا
جو تعلق سزا بن جائے مٹا کر ہم کو
فیصلہ دل سے کرو ساتھ جو چلنا ہے مرے
سر کو اقرار میں بس تم نہ ہلا کر ہم کو
دیجئے عمر درازی کی دعائیں نہ مجھے
خار سے دامن دل جلدی چھڑا کر ہم کو
رشتۂ خواب سے کب خود کو جدا کر پائی
شب گزرنے کا یہی اک ہے بہا کر ہم کو
تیغ گردن پہ تھی یوں شاہ کی تعریف کری
کتنا مشکل تھا برائی کو بتا کر ہم کو
جب تلک پڑھنے کے قابل رہا وہ خط رکھا
جس کی تحریر مٹے اس کو جلا کر ہم کو
وہ وشمہ کو بھلا بیٹھا تمہیں کیسے خبر
مجھ کو افواہ میں بھی سچ ہی سنا کر ہم کو