دل کی دنیا کا جو دستور نہیں ہے کوئی
جادہء عشق میں مجبور نہیں ہے کوئی
جتنے بھی طلم کمالیں یہ زمانے والے
روزِ محشر سے تو اب دور نہیں ہے کوئی
کتنا مغرور ہے دیکھونا زمیں زاد یہاں
جس کے چہرے پہ ابھی نور نہیں ہے کوئی
کب سے ہے شہرِ فسوں کار میں الجھن ہر سو
اپنے حالات سے مسحور نہیں ہے کوئی
کچھ پسِ ذوقِ تمنا بھی ہے چرچا ہر سو
ایسے ہی شہر میں مہشور نہیں ہے کوئی
غم کی کشتی کو کنارے سے لگایا پھر بھی
میری محنت پہ تو مشکور نہیں ہے کوئی
اس کو بھی حسن ِ محبت کی طلب ہے وشمہ
میرے جیسی بھی یہاں حور نہیں ہے کوئی