روز سوتا ہوں میں یادوں میں کسی کی رو کے
خواب آتے ہیں تو جگتا ہوں میں آنکھیں دھو کے
بے وفائی کی اسی نے جسے من سے چاہا
کھائے ہیں اپنوں سے ہی ہم نے مسلسل دھو کے
پیار میں کیسی ہے مجبوری یہ دیکھو یارو
لوٹ آتا ہوں مسلسل بنا دیکھے ہو کے
اس لیے کرب سبھی سہتا ہوں ہے میرا وہ
اس کا حق ہے کہ ستائے مجھے چاہے ٹو کے
سوز ہجراں میں رہی زیست ہے کٹ میری
ہجر غم کرب کا اشکوں سے بہاؤ رو کے
چھوڑ کیوں مجھکو گیا ہے یہی معلوم نہیں
جو کبھی میرا تھا شہزاد نہیں اب جو کے