روشنی کو با ادب اسکے نام کر دیا
اندھیرے کو تقدیر کا غلام کر دیا
خشم آلود تردد خیز ہی کیا
جو تھا تر طبیعت مے سبکو تمام کر دیا
نفس کے لبو پر نام تھا اختتام کے وقت
پر بھی جاذب نظر سے کفن کا نجام کر دیا
یادیں تو قید ہے اب بھی ایک گوشه لئے
ایک دن طفیل آہ سے یادوں مے شام کر دیا
کوئی بھی سجدہ نہیں کیا اتفاقی کے بعد
دانستہ میرے نام کو اپنا امام کر دیا