پیاری سی اک بیٹی تھی
نام تھا زہرا روپ
کھوگیا ہم سے وہ رشتہ
تھا جو سنہرا روپ
کیونکر اتنا پیار دیا
تھی وہ انوکھی روپ
کیسے ہنسی اب آئے گی
یاد یں اس کی روپ
تلخ بہت ہے دنیا کی
جلتی بلتی دھوپ
اس میں کیسے رہ پاتی
نازک میری روپ
چند ملے دن دنیا کے
بخت کا مارا روپ
نظروں سے اب اوجھل ہے
آنکھ کا تارا روپ
کیسے بھول اب پائیں گے
جان سے پیارا روپ
روتا ہم کو رکھے گا
وہ دکھیارا روپ
١٦ نومبر ٢٠١٤