مجھے ملیں نہ ملیں میری خبر رکھتے ہیں
مجھے تسلی ہے وہ مجھ پہ نظر رکھتے ہیں
ملال کیوں ہو ان کے دور چلے جانے کا
جہاں بھی جائیں رخ تو ادھر رکھتے ہیں
نگر نگر کی سیاحت سے کوئی سروکار نہیں
ہم وہیں رہتے ہیں رخ قبلہ جدھر رکھتے ہیں
وہ لاجواب ہیں اس میں کوئی کلام نہیں
وہ ہر بیان میں تاثیر و اثر رکھتے ہیں
دل و نگاہ جن ان کی شخصیت کے قائل ہیں
وہ ایک دو نہیں ہزاروں ہنر رکھتے ہیں
یہ دو کلبوت حقیقت میں ایک پیکر ہیں
مگر نامحرم یہ پہچان کدھر رکھتے ہیں
گرچہ اس فن میں ہم یکتا نہیں ہیں مگر
بات سے بات بنانے کا ہنر رکھتے ہیں
ہم بھی اوروں کی طرح سے عظمٰی
حلقہ سخن میں تھوڑا سا اثر رکھتے ہیں