درد مندوں کو ستانا ہے میرے شہر میں عام بات
کسی کا بھی حق کھانا ہے میرے شہر میں عام بات
مُردوں کو جلاتے ہیں ترے شہر والے افسردگی میں
جناب! زندوں کو جلانا ہے میرے شہر میں عام بات
رکھ کے کمزور کی گردن پہ پاؤں ہنسنا ، ناز کرنا
یوں اپنا سکہ منوانا ہے میرے شہر میں عام بات
کسی حادثے پہ میں کیا کروں اظہارِ غم بتاؤ!
روز بروز دہشت پھیلانا ہے میرے شہر میں عام بات
پتھر رکھ لیے ہیں ہم نے سینوں میں دل کی جگہ
دل توڑنا دل دُکھانا ہے میرے شہر میں عام بات
جنگل میں شاید ہو کچھ اِس سے بہتر نظامِ حیات
یہاں زخمی کو تڑپانا ہے میرے شہر میں عام بات
نہال اگرچہ جلاتے ہیں سبھی شب میں چراغِ محبت
شب میں شمع بجھانا ہے میرے شہر میں عام بات