میں نے تو دکھوں سے رہائی مانگی تھی
پھر تم کیوں مجھ سے جدائی مانگی تھی
میں تو تیری یادوں میں ہی تھی اے ستم گر
تو نے مجھ سے کیسی گواہی مانگی تھی
دن رات تو ڈھل جاتے ہیں یوں ہی میرے
میں نے طعنوں سے دوہائی مانگی تھی
اے میرے ہمسفر اے میرے ہمنوا
میں نے تو فقط اپنی پارسائی مانگی تھی