گُل کو ڈالی پہ ہی رہنے دو تو اچھا ہے
چمن میں تازگی رہنے دو تو اچھا ہے
گُلشن کو ضرورت ہے وفا کے پھولوں کی
خزاں کو دور ابھی رہنے دو تو اچھا ہے
پھر نجانے کب بہاروں کا بسیرا ہو
ابھی ہر شاخ ہری رہنے دو تو اچھا ہے
آنکھوں نے کبھی ساون کی راہ نہیں دیکھی
ہونٹوں پہ ہنسی رہنے دو تو اچھا ہے
بیتے ہوئے قصے پھر کبھی دُھرا لینا
کچھ باتیں ان سُنی رہنے دو تو اچھا ہے
اتنی تو عنایت کے رضا حقدار ہیں ہم
زرا سی زندگی رہنے دو تو اچھا ہے
گریزاں ہو گئے ہیں سبھی لوگ تم سے
اگر یہ شاعری رہنے دو تو اچھا ہے