سوچتا ہوں جب دُکھ ہی حاصلِ جاں ہو
پھر تو زندگی اپنی دُکھوں کی دُکاں ہو
رنگ بِرنگے دکھ طاق پہ سجے ہیں
کاسنی کہیں، آتشی دہکتا ہوا رنگ
سُرخ شریانوں سے ٹپکتا ہوا رنگ
سوزشِ دل سے پگھلتا ہوا رنگ
ہجر کی آگ میں سلگتا ہوا رنگ
تیری یادوں سے مہکتا ہوا رنگ
سوچتا ہوں، عشق نہ ہو جیسے کوئی امتحاں ہو
ہر روز ایک نیا آموختہ پڑھنا
ہجر و وصل کی داستاں پڑھنا
اشاروں کی مبہم زباں پڑھنا
زندگی کے سُود و زیاں پڑھنا
پھر سوچتا ہوں زخم کھلنے کے لئے
کوئی خاص موسم ہو ضروری تو نہیں
جب تُم ہی نہیں ہو میری دُنیا میں
زخموں کے پھول کھلیں، کونپلیں پھوٹیں
درد کب در آئے کسے معلوم
ہم تیار بیٹھیں رہیں
وحشتِ دل کے لئے کب کیا ساماں ہو
کوئی رُت نہیں ہے جنوں کی
موسم ِ گل ہو کہ خزاں ہو
درد ہو، کسک ہو، خیالِ جانِ جاں ہو!