زخمِ دل کا نشاں رہا بھی نہیں
درد دل سے مگر گیا بھی نہیں
میرا دل تو خلا کی مانند ہے
میرے دل میں تو اب خدا بھی نہیں
ان کے ہاں چاند ہے ستارے ہیں
میرے ہاں اک عدد دیا بھی نہیں
جس کی چاہت میں چھوڑ دی دنیا
اس کی چاہت سے کچھ ملا بھی نہیں
مہد اتنے گناہ کیئے ہم نے
اب تو خوفِ خدا ذرا بھی نہیں